Saeed Bin Abi Waqas in Urdu

| comments

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو زہرہ سے تھا جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ننھیالی خاندان ہے ۔اس لیے آپ رشتے میں حضور کے ماموں زاد بھائی تھے۔ حمزہ بن عبدالمطلب کی والدہ آپ کی سگی پھوپھی تھیں
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو زہرہ سے تھا جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ننھیالی خاندان ہے ۔اس لیے آپ رشتے میں حضور کے ماموں زاد بھائی تھے۔ حمزہ بن عبدالمطلب کی والدہ آپ کی سگی پھوپھی تھیں۔ ہجرت مدینہ سے تیس برس پہلے پیدا ہوئے۔ نزول وحی کے ساتویں روز ابوبکرصدیق کے ترغیب دلانے پر مشرف با اسلام ہوئے۔ اور عمر بھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ خصوصی کے فرائض انجام دئیے۔
سعد بن ابی وقاص بہت مضبوط جسم کے انسان تھے۔ قد چھوٹا ہونے کے باوجود رعب دار شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کا بڑا سر آپ کے مدبر ہونے کی غمازی کرتا تھا اور مضبوط انگلیاں قوت بازو کی شاہد تھیں۔ تیر اندازی میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ اسلام کی خاطر سب سے پہلے کسی کافر کا خون بہانے کا شرف آپ کو حاصل ہوا۔ جب دور ابتلاء میں کفار نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنا چاہا تو ایک مردہ اونٹ کی ہڈی سے دشمنوں پر حملہ کرکے ان میں سے ایک کو لہولہان کردیا اور باقی سب بھاگ جانے پر مجبور ہوگئے۔
سعد بن ابی وقاص اور ان کا خاندان ذوق جہاد میں بہت ممتاز تھے۔ غزوہ بدر میں آپ کے کم عمر بھائی عمیر نے اصرار کرکے شرکت کی اجازت لی اور معروف پہلوان عمرو بن عبدود کے ساتھ مقابلہ کرکے جام شہادت نوش کیا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے قریش کے ناقابل شکست سردار سعد بن العاص کو جہنم رسید کیا اور تین کافروں کو باندھ کر حضور کی خدمت میں پیش کیا۔غزوہ احد میں آپ نے تیر اندازی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت تک حفاظت کی جب مسلمان تیر اندازوں کے پشت سے ہٹ جانے کے سبب خالد بن ولید کے دستے نے عقب سے حملہ کرکے بہت نازک صورت حال پیدا کر دی تھی۔ اس موقع پر حضور فرما رہے تھے۔ ”اے سعد تجھ پرمیرے ماں باپ قربان تیر چلاتے جاوٴ۔“ غالباً اس انداز سے حضور نے کسی اور صحابی کو کبھی مخاطب نہیں کیا۔ "عامر بن سعد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لئے احد کے دن اپنے ماں باپ کو جمع فرمایا سعد فرماتے ہیں کہ مشرکوں میں سے ایک آدمی تھا کہ جس نے مسلمانوں کو جلا ڈالا تھا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سعد سے فرمایا اے سعد تیر پھینک میرے ماں باپ تجھ پر قربان سعد فرماتے ہیں کہ میں نے بغیر پرکھے تیر کھینچ کر اس کے پہلو پر مارا جس سے وہ گر پڑا اور اس کی شرمگاہ کھل گئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس پڑے یہاں تک کہ میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی داڑھیں مبارک دیکھیں"۔
سعد بن ابی وقاص نے غزوہ خندق میں بھی داد شجاعت دی۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر بیعت رضوان میں شریک ہوئے۔ فتح مکہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین صحابہ کو علمبردار مقرر کیا ان میں سے ایک سعد بن ابی وقاص بھی تھے۔ غزوہ حنین میں شرکت کا شرف بھی آپ کو حاصل تھا۔ فتح خیبر میں بھی آپ رسول اللہ کے ہم رکاب تھے اور غزوہ حنین میں بھی آپ کا خاص اعزاز یہ تھا کہ خطرناک ترین حالات میں آپ کو رسول اللہ ﷺکی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی۔حجہ الوداع کے موقع پر اتنے بیمار ہوگئے کہ صحت یابی کی امید نہ رہی۔ حضور نے دعا فرمائی چہرے اور شکم پر دست مبارک پھیرا اور آپ صحت یاب ہوگئے۔ اس موقع پر آپ کے دعائیہ کلمات آپ کے فاتح قادسیہ ہونے کی پیش گوئی کا رنگ لیے ہوئے ہیں۔ آپ نے فریایا۔ سعد شاید خدا تم کو بستر سے اٹھائے اور تم سے کچھ لوگوں کوفائدہ اور کچھ کو نقصان پہنچے۔ آپ نے اس موقع پر اپنا سارا مال صدقہ کر دینا چاہا لیکن حضور نے صرف ایک تہائی صدقہ کرنے کی اجازت دی۔
آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرنے میں پہل کرنے والوں میں سے تھے اور انتظامی صلاحیت کی وجہ سے آپ کو بنو ہوازن کا عامل مقرر کیا گیا۔ اس منصب پر آپ کئی سال فائز رہے۔آپ کی زندگی کا بہت عظیم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اس نازک وقت میں اسلامی لشکر کی قیادت کی ۔جب ایران کے محاذ کی صورت بہت تشویشناک تھی۔ جسر کی جنگ میں ابوعبیدہ ثقفی شہید ہو گئے تھے ۔ ایران میں نوجوان بادشاہ یزد گرد نے اقتدار سنبھال کر ایران کی فوجی حمیت کو اپیل کی تھی اور ایک لشکر جرار تیار کرکے اسلامی سلطنت پر حملہ آور ہونے کے احکامات جاری کیے تھے۔ ان حالات میں بعض صحابہ کی رائے یہ تھی کہ امیرالمومنین عمر بن خطاب کو خود محاذ پر جانا چاہیے۔ چنانچہ وہ مدینہ سے اس نیت سے روانہ ہو بھی گئے لیکن بعد میں علی المرتضی اور عبدالرحمن بن عوف نے سعد بن ابی وقاص کو سپہ سالار مقرر کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس طرح یہ جہاندیدہ اور بہادر جرنیل محاذ جنگ پر پہنچا۔
قادسیہ کی جنگ طویل ترین سب سے زیادہ فیصلہ کن اور اہم جنگ تھی۔ تین روز کی اس جنگ میں شجاعت کے نئے ریکارڈ قائم ہوئے۔ جنگی چالوں میں دشمن کو مات دی گئی اور کسریٰ کی عظیم فوج کی شکست سے اس کی سلطنت کی بنیادیں ہل گئیں۔جنگ کے بعد سعد بن ابی وقاص نے یکے بعد دیگرے ایران کے تمام فوجی مراکز کو سرنگوں کیااور ایرانی درالحکومت مدائن کی طرف پیش قدمی کی۔ دریائے دجلہ کی طغیانی اور تند و تیز موجیں بھی لشکر اسلام کا راستہ نہ روک سکیں اور سعد بن ابی وقاص نے خدا کا نام لے کر اپنے گھوڑے کو دریا میں ڈال دیا۔ مسلمان ہنستے کھیلتے دریا عبور کرنے لگے تو ایرانی دیو آگئے دیو آگئے پکارتے ہوئے راہ فرار اختیار کر گئے۔ مدائن کے بعد جلولا اور دوسرے شہر فتح ہوئے اور نوادرات اور مال غنیمت مدینہ روانہ کر دئیے گئے۔
سعد بن ابی وقاص مفتوحہ ایران کے پہلے امیر تھے۔ آپ نے کچھ دیر تک مدائن کو اپنا مرکز حکومت بنایا پھر 17 ھ میں کوفہ کا شہر بسایا۔ آپ کے دور امارت میں بے شمار مدرسے ، مکتب ، مساجد پل اور نہریں بنائی گئیں۔ عمرفاروق نے بعض شکایات موصول ہونے پر 21 ھ کو سعد بن ابی وقاص کو ان کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا۔
عمرفاروق نے جن چھ افراد کو خلیفہ منتخب کرنے کا اختیار دیا تھا۔ سعد بن ابی وقاص ان میں سے ایک تھے۔ عثمان ذو النورین نے آپ کو دوبارہ کوفہ کا والی مقرر کیا۔ عبداللہ بن مسعود سے اختلاف ہو جانے پر تین سال بعد آپ کو پھر اس منصب سے علیحدہ کر دیا گیا۔

Character of Prophet Muhammad PBUH in Urdu

| comments

اس کائنات کے اندر جتنی بھی عظیم شخصیات کا گزر ہوا ہے۔جو اعلیٰ اخلاق وکردارکی بنیاد پر دنیا پر انمٹ نقوش چھوڑ گئے ان تمام کے اخلاق حسنہ کو جمع کرلیا جائے۔تو میرے مصطفی علیہ السلام کے سامنے ان کے اخلاق و کردار کی حیثیت صفر ہی رہے گی۔آپ ایسے اعلیٰ اخلاق وکردار کا پیکروجمال تھے جس کی کوئی مثال ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتی۔اپنی بچپنے سے لے کر جوانی تلک جب تک آپ نے نبوت کا تاج نہ پہنا تھا،مشرکین عرب میں آپ صادق وامین کے لقب سے ملقب تھے۔وہ آپ سے اپنے بیٹوں سے زیادہ محبت والفت کرتے تھے۔آپ کے داداعبدالمطلب کے ہاں آپ کا مقام اور شان تواتنی اعلیٰ وارفع تھی کہ وہ خاص مقام یا جگہ جو ان کے لیے مخصوص تھی،جس پر ان کی سگی اولاد کو بھی بیٹھنے کی اجازت نہ تھی،مگریہ دریتیم،آمنہ کے لعل،صاحب حسن وجمال جناب محمدﷺاس پر آکر براجمان ہوجاتے آپ کے چاچوعبدالمطلب کے بیٹے آپ کو ٹوکتے کہ یہاں نہ بیٹھو،مگر جب عبدالمطلب کواس کا علم ہوتا توگویا ہوتے:’’میرے پوتے کویہاں براجمان ہونے سے مت روکا وٹوکا کروکیونکہ اس کی شان نرالی ہے،اس کا مرتبہ اعلیٰ ہے۔‘‘جب بھی عرب میں کوئی امانت رکھوانا چاہتا توآپ ﷺ کے پاس آکر اپنی امانت رکھواجاتا،کیونکہ ان میں مشہورتھا کہ آپ ﷺ نے بڑھ کر کوئی بڑا،امین مکہ کی سرزمین میں سرے سے موجود ہی نہیں۔آپ کی ہربات کووہ من وعن تسلیم کر لیتے۔جب نبوت کا تاج آپ کے سرپرسجایاگیا،توآپ کے کمال اخلاق نے بڑے بڑے دشمنوں کواپناگرویدہ اوراسلام کا جانثاربنادیا۔ جوجان لینے کی غرض سے آتے وہ اسلام کے لیے اپنادل دے بیٹھتے۔اپنے خونی رشتوں کوآپ کے لیے چھوڑنا گوارہ کرلیتے مگرآپ سے جدائی کاصدمہ وہ برداشت کرنے سے قاصر نظرآتے۔آپ کااعلیٰ اخلاق سے قرآن وحدیث کے ذخائر بھرے پڑے ہیں۔حتیٰ کہ سابقہ شریعتوں کی کتب میں بھی آپ کے اعلیٰ اخلاق کو ذکر کیا گیا ہے۔تورات میں آپ کے اخلاق کے متعلق یہ مذکور ہے کہ:’’آپ نہ بداخلاق ہیں اور نہ سخت مزاج ہیں۔نہ ہی بازاروں میں اونچی آواز سے بات کرتے ہیں۔اور برائی کا جواب برائی سے نہیں بلکہ معاف کردیتے ہیں اوردرگزر کردیتے ہیں۔‘‘آپ کے ساتھ زندگی بسرکرنے والے چاہے وہ آپ کے اصحاب ہوں یا مشرکین عرب آپ کے اخلاق کی عمدگی پر توسب ہی متفق تھے۔چنانچہ جب آپ نے اعلانیہ دعوت کے لیے پہلا قدم اٹھایا توصفا پہاڑی پرچڑھ کر آواز لگائی اورپوچھا:’’کیا میں جوکہوں گا تم میری بات پر یقین کروگے اور اسے مانوگے؟‘‘سب نے بیک آوازمیں کہا:’’ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولتے ہی پایا ہے۔‘‘اسی طرح آپ کے اصحاب سے جب بھی اَخلاق نبوی کے بارے میں دریافت کیاگیاتوانہوں نے ہمیشہ آپ کے اعلیٰ اخلاق وکردار کی تعریف کی۔اس وقت چونکہ غلامی کاسلسلہ بھی تھا اس لیے غلاموں کے مالک اپنے غلاموں کے ساتھ بہت برا رویہ اپناتے تھے لیکن حضرت انس رضی اﷲ عنہ جو آپ کے آزادکردہ غلام تھے اوردس سال خدمت نبوی میں رہے۔آپ ﷺ کا رویہ ان کے ساتھ اتنا عمدہ تھا کہ وہ بیان کرتے تھے کہ:’’نبی کریم نہ برابھلا کہتے تھے،نہ بے ہودہ گفتگوکرتے تھے،نہ کسی پراپنی ذات کے لیے لعنت بھیجتے۔‘‘آپ کے پاس کوئی سائل آتا تو کبھی ناامید ہوکرنہ لوٹتا بلکہ غنی ہوکر ہی واپس جاتا۔آپ میں عاجزی وانکساری کا عنصر بھی کوٹ کوٹ کربھراہواتھا۔صحابہ کرام سے ہمیشہ گھل مل کر رہتے جوکوئی بھی آپ سے ملناچاہتاتھا بغیرکسی تگ ودوکے آپ سے مل کراپنا مسئلہ بیان کردیتاتھا۔آپ یہ دعا بھی کیا کرتے تھے :’’اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْناً وَاَمِتْنِیْ مِسْکِیْناً وَاحْشُرْنِیْ فِیْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ‘‘ (کہ اے اﷲ! مجھے اس حال میں زندہ رکھ کہ میں مسکین رہوں اوراسی حال میں مجھے موت دینا اورقیامت کے دن مجھے مسکینوں کے گروہ میں اٹھانا۔)ایک بار مومنوں کی ماں سیدہ عائشہ صدیقہ ومطھرہ رضی اﷲ عنھا نے یہ دعا پڑھتے ہوئے سنا تو فرمانے لگیں کہ:’’ آپ یہ دعا کیوں کرتے ہیں؟توآپ فرمانے لگے:’’بے شک مساکین مالداروں سے چالیس سال پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔پھرآپ فرمانے لگے:اے عائشہ!مسکین کو خالی نہ لوٹایا کرواگرچہ آدھی کھجور ہی دو۔عائشہ !تم مسکینوں سے محبت کرو اور انہیں اپنے قریب کرو،اس طرح اﷲ تمہیں روز قیامت اپناقرب نصیب کرے گا۔‘‘(الترمذی:2352)مساکین سے حقیقی محتاج مراد تھے ناکہ آج کل کے پیشہ وربھکاری ،جنہوں نے مانگنے کو پیشہ بنا لیا ہے۔ایسے لوگوں کے بارے میں تو یہ وعید آئی ہے کہ کل قیامت والے دن جب اﷲ کے دربار میں آئیں گے تو ان کا چہرہ صرف ہڈیوں کا ڈھانچا ہی ہوگا،گوشت نہ ہوگا۔آپ ﷺ کے ساتھ اپنے ساتھیوں کا رشتہ اتنا گہرہ تھا کہ جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا کوئی لونڈی آپ کے پاس آتی اور آپ کو اپنا مسئلہ حل کروانے کے لیے آپ کو ساتھ لے جاتی توآپ اس کے ساتھ چل پڑتے(صحیح البخاری:6072) آج کل کے حکمرانوں کی طرح تکلف نامی بیماری کا تو دور تک کوئی نام ونشان تک نہ تھا۔غرض کے آپ اپنی امت کے لیے سب کچھ قربان کیے ہوئے تھے۔اسی طرح ایک ذمہ دار کی حیثیت سے آپ پر رعایا کی جو ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں ان کا بھی خاص خیال رکھتے چنانچہ آپ کمزورومسلمانوں کے پاس آتے،ان سے ملاقات کرتے،ان میں سے جو بیمار ہوتا اس کی عیادت کرتے،جو فوت ہوجاتا اس کی نماز جنازہ ادا کرتے اورتدفین میں شریک ہوتے۔(المستدرک حاکم)اسی طرح سلام میں پہل کرتے،اسی طرح آپ میں تکلف نام کی تو کوئی چیز تھی ہی نہیں حتیٰ کہ زمین پر بیٹھ جاتے اور زمین پر بیٹھ کر ہی کھانا کھاتے۔بکری کو باندھتے اور جو کی روٹی پر بھی کوئی غلام دعوت دیتا تواس کا دل رکھنے کے لیے دعوت قبول کرلیتے۔(الطبرانی)صحابہ کرام کو کوئی شخص آپ سے بڑھ کرعزیز ،قابل احترام اور محبوب نہ تھا ،اس کے باوجود بھی جب آپ صحابہ کی مجلس میں تشریف لاتے توصحابہ میں سے کوئی احتراماً کھڑا نہ ہوتا کیونکہ آپ نے اس عمل سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔(سنن الترمذی:2754)مگر آج ایسا نہ کرنے والے سزا کے مستحق قرارپاتے ہیں اورکوئی نام نہاد حکمران کے سامنے احتراماً کھڑا نہ ہوتو وہ اس میں اپنی توہین سمجھتا ہے۔جس طرح آپ کا کرداراجلا اورصاف ستھرا تھا بعینہہ آپ کا گفتار بھی عمدہ تھا۔کبھی زبان سے کسی کوتکلیف نہ دی مگرآج نام نہادعاشق رسول ﷺکا دعویٰ کرنے والوں کا اخلاق و کردارایسا ہے کہ اﷲ معاف کرے ۔ان کی زبان سے کوئی محفوظ ہے نہ کردارسے،ان کی زبان وہاتھ مسلمانوں کے خلاف چلتے ہیں۔حالانکہ ایک مسلمان کادوسرے مسلمان پرخون بہانا،مال کھانا،اور عزت خراب کرنا حرام ہے۔مگرنام نہاد مسلمانوں کے ہاتھ اپنے ہی بھائیوں کے خون سے رنگ چکے ہیں۔ان کی زبانیں اپنوں کے خلاف نشتر بن چکی ہیں۔اﷲ ہمیں نبوی اخلاق اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

Ramadan ul Mubarak ki Fazilat in Urdu

| comments

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا”جس نے ایمان اور احتساب کے احساس کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے  اور احتساب کے احساس کے ساتھ قیام کیا اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردیے جائیں گے 

جب شیاطین جکڑ لئے جاتے ہیں․․
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا”جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیطان اور اور سرکش جن قید کر لیے جاتے ہیں ۔دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ۔اس کا کوئی دروازہ نہیں کھولاجاتا ۔آواز دینے والا پکاراتا ہے اے خیر کے طلب کرنے والے متوجہ ہو اور اے شرکے طلب کرنے والے اور اللہ کے لیے آگ سے آزاد ہونے والے ہیں ہر رات ہوتا ہے۔
بخشش اور مغفرت کا مہینہ․․
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا”جس نے ایمان اور احتساب کے احساس کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردیے جائیں گے اور جس نے ایمان اور احتساب کے احساس کے ساتھ قیام کیا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے اور جس نے لیلتہ القدر کی رات ایمان اور احتساب کے ساتھ قیام کیا اس کے سارے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔
روزہ اور قرآن مجید شفاعت کریں گے․․
حضرت عبداللہ بن عمرورضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا”روزے اور قرآن دونوں بندے کی شفاعت کریں گے۔روزے کہیں گے کہ اے رب بے شک میں نے اس کو ان کے وقت کھانے اور شہوت سے روکا۔اس کے بارے میں میری شفاعت کر اور قرآن مجید کہے گا میں نے اس کو رات کے وقت سونے سے روکے رکھا توا س کے معاملے میں میری شفاعت قبول کر۔ چنانچہ دونوں اس کی شفاعت کریں گے۔
روزہ دار کے لیے جنت کے دروازے کا نام․․
حضرت سہل ابن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا” جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ان میں سے ایک دروازے کا نام باب الریان ہے جس میں سے صرف روزے دار داخل ہوں گے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا” ایک آدمی جنگل میں جارہا تھا۔اس نے بادل سے ایک آواز سنی ۔کوئی کہہ رہا تھا کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کردو۔ وہ بادل چلا اور پتھریلی زمین پر اپنا پانی ڈال دیا۔ ایک نالی نے وہ سار اپانی جمع کیا۔ایک آدمی اپنے باغ میں کھڑا بیلچہ لیے باغ میں پانی پھلارہا تھا۔اس نے کہا اللہ کے بندے تیرا کیا نام ہے۔اس نے کہا میرا نام فلاں ہے ۔یہ وہی نام تھا جو اس بادل سے سنا تھا۔اس نے پوچھا اے اللہ کے بندے تو میرا نام کیوں پوچھ رہا ہے ؟ اس نے کہا میں نے اس بادل سے جس کا یہ پانی ہے اس سے سناتھا ۔وہ کہہ رہا تھا کہ فلاں شخص کے باغ کو سیراب کردو۔تم اس باغ میں کیا کرتے تھے؟اس آدمی نے جواب دیا جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تم نے یہ بات کہی ہے ہے تو میں بتاتا ہوں ۔اس باغ سے جوپیداوار ہوتی ہے میں اس کو دیکھتا ہوں ۔ایک تنہائی میں صدقہ کردیتا ہوں ایک تنہائی میں اور میرے گھر والے کھاتے ہیں اور ایک تنہائی میں اس باغ میں لوٹا دیتا ہوں ۔(یعنی اس باغ پر خرچ کرتا ہوں)۔
اللہ تعالیٰ کے بندوں کی مدد کرنے کا نقصان․․
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپﷺ نے فرمایا”بنی اسرائیل میں تین لوگ تھے ۔ایک کوڑھ زدہ دوسرا گنجااور تیسرا اندھا۔اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ایک فرشتہ ان کے پاس بھیجا۔وہ کوڑھ زدہ کے پاس گیا اور کہا تجھے کون سی چیز سب سے زیادہ پیاری معلوم ہوتی ہے۔وہ کہنے لگا خوبصورت رنگ حسین جسم اور یہ بیماری مجھ سے دور ہوجائے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے گھن کھاتے ہیں۔آپﷺ نے فرمایا”اس فرشتے نے اس کے جسم پر ہاتھ پھیرا ء اس کی بیماری دورہوگئی۔اسے اچھا خوبصورت رنگ تندرست جسم مل گیا۔ اس فرشتے نے پوچھا کہ تمھیں کون سا مال پسند ہے؟ وہ آدمی کہنے لگا مجھے اونٹ یا گائے پسند ہے۔اسحاق نے اس میں شک کیا ہے کہ آپ ﷺ نے اونٹ کہا تھا یاگائے مگر کوڑھ زدہ اور گنجے میں سے ایک نے اونٹ کہا اور دوسرے نے گائے۔چنانچہ اس کو دس ماہ کی حاملہ اونٹنی دے دی گئی اور فرشتے نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تیرے لیے اس میں برکت ڈالے پھر وہ گنجے کے پاس آیااورکہا کہ تجھے کیا چیز محبوب ہے؟ اس نے کہا اچھے بال اور میرا گنج ختم ہوجائے جس کی وجہ سے لوگوں کو مجھ سے گھن آتی ہے اس نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ۔اس سے وہ گنج جاتا رہا اور اسے خوبصورت بال دے دیے گئے ۔پھر فرشتے نے پوچھا تجھے کون سا مال پسند ہے؟ اس نے کہا گائے اس کو حاملہ گائے دے دی گئیں اور کہا اللہ تعالیٰ تیرے لیے اس میں برکت ڈالے۔پھر وہ اندھے کے پاس آیا اور پوچھا تجھے کیا چیز محبوب ہے؟ اس نے کہا اللہ تعالیٰ میری نظرلوٹا دے تاکہ میں لوگو ں کو دیکھ سکوں ۔فرشتے نے ہاتھ پھیرا اللہ تعالیٰ نے اس کی نظراس کو واپس لوٹا دی۔پھر فرشتے نے پوچھا تجھے کون سامال پسند ہے ؟ اس نے کہا بکری اسے ایک حاملہ بکری دے دی گئی اور کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ تیرے لیے اس میں برکت پیدا کرے۔پہلے دو کے ہاں اونٹ اور گائے نے بچے دیئے اور تیسرے کے ہاں بکری نے بچے دیئے ۔ سب کا مال بڑھتا گیا۔کو ڑھ زدہ کا ایک جنگل اونٹوں سے بڑھ گیا گنجے کا کائیوں سے اور اندھے کا بکریوں سے آپ ﷺ نے فرمایا”فرشتہ کو ڑھ زدہ کے پاس اس حلیے اور صورت میں گیا اور کہا میں مسکین آدمی ہوں ۔مجھ سے سفر کے اسباب منقطع ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت اور آپ کی مدد کے بغیر میں کہیں نہیں پہنچ سکتا ۔میں اس اللہ کے نام پر تجھ سے سوال کرتا ہوں جس نے تجھے خوبصورت رنگ اور تندرست جسم عطا کیا اور اونٹ دیئے ہیں تو مجھے ان میں سے ایک اونٹ دے دے تاکہ میں اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاؤں ۔وہ کہنے لگا حقوق بہت زیادہ ہیں ۔ فرشتے نے کہا میں نے تجھے پہچان لیا ہے۔ تووہی کوڑھ روالا ہے جس سے لوگ گھن کھاتے تھے ۔ توفقیر تھا اللہ تعالیٰ نے تجھے مال عطا کیا۔ وہ کہنے لگا میں اپنے باپ دادا کے وقت سے اس مال کا وارث ہوں ۔ فرشتے نے کہا اگر تو جھوٹا ہو تو اللہ تعالیٰ تجھے پہلی حالت میں لوٹا دے۔ پھر وہ گنجے کے پاس آیا اور وہی پہلی صورت اختیار کرلی۔ اس نے بھی اسی طرح جواب دیا اور فرشتے نے کہا اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تعالیٰ تجھے پہلی حالت میں لوٹا دے۔ آپﷺ نے فرمایا”پھر وہ اندھے کے پاس آیا اور اس کی شکل اور حالت اختیار کی اور کہا کہ میں مسکین اور مسافرہوں اور اب سفر کے اسباب مجھ سے کٹ چکے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت اور آپ کا سہارا ہے میں اس اللہ کے نام سے آپ سے سوال کرتا ہوں جس نے آپ کو آنکھیں دیں مجھے ایک بکری دے تاکہ میں اس کے سبب اپنی منزل تک پہنچ سکوں اس نے کہا ہاں میں اندھا تھا اللہ تعالیٰ نے میر نظر واپس لوٹا دی۔ تو جو چاہتا ہے لے لے اور جو چاہتا ہے چھوڑدے ۔اللہ کی قسم اللہ کی راہ میں جس قدر چاہیے لے لو میں تجھے تکلیف نہ دوں گا ۔ اس فرشتے نے کہا اپنا مال رکھ لت تمھاری آزمائش کی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ تیرے ساتھیوں سے ناراض اور تجھ سے راضی ہوگیا۔

Hazrat Abu Bakr Siddique r.a in Urdu

| comments

حضرت ابو بکر صدیقؓ کا شمار مکہ کے کامیاب تاجروں اور رؤسا میں ہوتا تھا ،آپ کے والد گرامی بھی شرفائے مکہ میں تھے ،حلقہ بگوش اسلام ہونے سے قبل زمانہ جا ہلیت میں لوگوں کا خون بہا آپؓ کے پاس جمع ہوتا تھا۔ دیانت ،امانت اورراست بازی کی وجہ سے معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے،زمانہ جاہلیت میں بھی شراب سے سخت نفرت تھی ،جوا،قمار اور بت برستی سے ہمیشہ بچے رہے،الغرض آپ عہد جاہلیت میں بھی اخلاق حمیدہ سے متصف تھے،غریبوں کی خبر گیری ،بے کسوں اوراپاہجوں کی مدد ،مہمان نوازی اور مسافروں کا خیال کرتے تھے،پاکیزہ زندگی آپ کا شعار تھا۔

آپ وہ خوش قسمت ترین انسان ہیں جن کے بارے میں پیغمبر اسلامْ ﷺ کا مبارک ارشاد ہے کہ حضرت ابوبکر کے علاوہ کوئی شخص نہیں جس کو میں اسلام کی دعوت دی ہواور اس نے بغیرتامل ،سوچ وبچاراور غور وفکر کے اسلام قبول کر لیا ہو۔تبلیغ اسلام کی وجہ سے مصائب برداشت کئے ،اپنا مال اسلام کے لیے وقف کر دیا،مسلم غلاموں کوخرید کر آزاد کرتے تھے ،ہجرت مدینہ کے سفر میں بنی کریم ﷺ کی معیت نصیب میں آئی،یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کی ہجرت کی ایک رات تمام راتوں سے بہتر تھی جب نبوت کے قدم آبلہ پا ہو گئے تو مخلص وجا نثا ر ساتھی نے سواری کے لیے اپنا کندھا گے پیش کیا ،اور رسول اللہ ﷺ کو غار ثور تک لے گے ،تین دن تک وہاں قیام فرمایا یہیں قرآن پاک کی آیات نصرت الہی کی نوید اور صحابیت صدیق اکبرؓ کے اعلان میں نازل ہوئیں۔یہ ایسی سعادت مندی تھی کہ حضرت عمرؓ اس وجہ سے آپ پر رشک کیاکرتے تھے ۔

ْ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ہر نبی کے دو وزیر اہل آسمان میں سے اور دو اہل زمین میں سے ہوتے ہیں میرے وزیر اہل آسمان میں جبرائیل اور میکائیل اور اہل زمیں میں سے ابوبکر و عمر ہیں۔(ترمذی)اور فرمایا کہ یقین جانو ! اللہ تعالیٰ نے مجھے تمھاری طرف مبعوث فرمایاتو تم لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو،صرف ابوبکر نے کہا کہ آپ سچ کہتے ہیں،انہوں نے اپنے مال و جان سے میری غم خواری کی، تو کیا تم اپنی بحث و تنقید سے معاف رکھو گے۔ (صحیح بخاری)سن 9ھجری میں نبی کریم ﷺ نے آپ کو امیر الحجاج بنا کر بھیجا ۔
حضرت ابوبکرؓ واحد شخصیت ہیں جن کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں ہی ارشاد فرمایا تھا ،ابو بکر سے کہو لوگوں کو نمازپڑھائیں ،اور آپ نے نبی پاک ﷺْ کی موجودگی میں سترہ نمازوں کی امامت کا شرف حاصل کیا۔امت پر سب سے مشکل دن وصال نبوت کا تھا جب تمام صحابہ گومگو کی کیفیت میں مبتلا تھے ، حضرت عمر فاروقؓ جیسا بہادر انسان بھی اس حادثہ عظیم کو ذہنی طور پر قبول کرنے کو تیار نہ تھے،حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اس مشکل گھڑی میں امت کو سنبھالا دیا اور راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا،صحابہ کرام نے بالاتفاق آپ کو خلیفۃ الرسول منتخب فرمایا،خلیفہ بننے کے بعد آپؓ نے پوری قوت کے ساتھ فتنوں کا خاتمہ کیا، جھوٹے مدعیان نبوت ہوں یا منکرین زکوٰۃ ہر ایک کو آڑے ہاتھوں لیا ،جیش اسامہ کو روانہ کرکے صحابہ کے جذبوں کو نئی روح عطا کی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں بڑی بڑی فتوحات حاصل کی، مہمات امور کا فیصلہ ہوا ،رو م و فارس کی سلطنتوں کو خلافت اسلامیہ میں داخل کیا گیا،لیکن ان سب کی داغ بیل سالار صحابہ، یار غار و مزار خلیفہ رسول سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے دور میں ڈالی گئی۔

خلیفہ راشد سیدنا ابوبکرصدیقؓ کسی بھی اہم معاملے میں اہل الرائے و فقہاء صحابہؓ سے مشورہ لیتے تھے جن میں حضرت عمرؓ ،حضرت عثمانؓ ،حضرت علیؓ ،عبد الرحمن بن عوفؓ ،معاذ بن جبلؓ ،ابی بن کعبؓ اور زید بن ثابتؓ قابل ذکر ہیں ،عاملوں اور عہدیداروں کے انتخاب میں بھی آپؓ ان لوگوں کو ترجیح دیتے تھے جو زمانہ رسالت میں عامل رہ چکے تھے جب بھی کسی عامل کا انتخاب فرماتے تو اس کو بلا کر اس کے فرائض کی تفصیل اور خوف خدا کے بارے میں ارشاد فرماتے ’’خلوت و جلوت میں خوف خدا رکھو جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسی جگہ سے رزق کا انتظام فرماتے ہیں جہاں سے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا ،جو خدا سے ڈرتا ہے وہ اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے ،اور اس کا اجر دو بالا کر دیتا ہے ،بیشک بندگان خدا کی خیر خواہی بہترین تقویٰ ہے ۔
‘‘
فطری جو دت طبع اور دربار نبوت کی حاشہ نشینی سے آسمانی فضل و کمال پر مہر درخشاں ہو کر چمکے فصاحت وبلاغت میں کمال رکھتے تھے ،تقریر و خطابت کا خداداد ملکہ تھا۔ بنی ساعدہ میں آپؓ کی شاہکار تقریر سے بر جستگی اور زور کلام کا اندازہ ہوتا ہے ،اس کے علاوہ نسب دانی ، تعبیر رؤیا ،علم تفسیر ،علم حدیث پر بھی آپؓ کو دسترس حاصل تھی ۔انفاق فی سبیل اللہ ،مہمان نوازی اور لباس و غذا میں سادگی میں اپنی مثا ل آپ تھے۔

27 ماہ کی خلافت کے بعد اپنی لخت جگر ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے فرمایا ’’جان پدر ‘‘میری جائیداد فروخت کر کے زمانہ خلافت میں مجلس شوری ٰ کی طرف سے دیے گئے مشاہرے کی مجموعی رقم بیت المال میں جمع کر دینا ،وفات کے وقت پوچھا کہ آج کونسا دن ہے ۔۔۔؟لوگوں نے بتایا دوشنبہ (پیر )پھر پوچھا رسو ل اللہ ﷺ کا وصال کس دن ہوا ۔۔۔؟بتایا گیا اسی روز تو فرمایا میری آرزوہے کہ آج رات تک اس عالم فانی سے رحلت کر جاؤں چنانچہ یہ آرزوبھی پوری ہوئی اور 65برس کی عمر میں ۲۲جمادی الثانیہ ۱۳ھجری کو راہ گزین عالم جاودانی ہو ئے ۔ جس تخت پر آپ ﷺ کو غسل دیا گیا اسی تخت پر حضرت ابوبکرؓ کو غسل دیا گیا۔وصیت کے مطابق آپؓ کی زوجہ اسماء بنت عمیس نے غسل دیااور بیٹے عبدالرحمن نے ان کی مدد کی، حضرت عمر فاروقؓ نے نماز جنازہ پڑھائی اورحضرت عثمان ،طلحہ ،عبد الرحمن بن عوفؓ، اور حضرت عمرؓ نے قبر میں اتارا ، حضرت صدیق اکبرؓ نے دنیا میں رسول اللہ ﷺ کا ساتھ نبھایا ،مہر ووفا کی لازوال داستانیں رقم کیں جس کی نظیر نہیں ملتی ، اس کا صلہ اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ روضہ رسول میں قیامت تک آپ کو جگہ عطا فرما دی۔

Controlling Anger is the greatest Reward

| comments

شدت اظہار کانام غصہ ہے۔ غصہ ایک غیر اختیاری عمل ہے جو ہرانسان میں موجود ہے۔ بعض مقامات پر غصہ ضروری بھی ہے مثلاََ جہاد کرتے وقت اگردشمنان اسلام پر غصہ نہیں آئے گاتو لڑکی کس طرح کریں گے۔
صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی:
 
شدت اظہار کانام غصہ ہے۔ غصہ ایک غیر اختیاری عمل ہے جو ہرانسان میں موجود ہے۔ بعض مقامات پر غصہ ضروری بھی ہے مثلاََ جہاد کرتے وقت اگردشمنان اسلام پر غصہ نہیں آئے گاتو لڑکی کس طرح کریں گے۔ انسان غصے کی حالت میں اللہ کی ناشکری کرتا ہے اور کفر کے کلمے تک بکنے لگتا ہے اور اپنے ایمان کی دولت کو ختم کرڈالتا ہے اور غصہ ہی اکثر لڑائی، جھگڑا اور فساد کا باعث بنتا ہے حتیٰ کہ اس گصہ کی وجہ سے قتل وغارت تک نوبت جاپہنچی ہے جب آپ کو کسی پر بہت غصہ آئے اور ماردھاڑ اور توڑ پھوڑ کوجی چاہے تو اپنے آپ کو اس طرح سمجھائیں کہ مجھے دوسروں پر جو طاقت قوت حاصل ہے اس سے کہیں زیادہ میرے اللہ کو مجھ پر طاقت، قوت اور قدرت حاصل ہے۔ اگر میں نے غصہ کی حالت کسی انسان کی دل آزادی کرڈالی تو قیامت کے روز اللہ کے غضب سے کیسے بچوں گا۔ 

تنبہیہ الغافلین میں ہے کہ حضرت سیدنا وہب بن منبہ فرماتے ہیں۔ نبی اسرائیل میں ایک بزرگ تھے ایک بار وہ کہیں تشریف لے گئے راستے میں ایک پتھر کی چٹان اوپرکی جانب سرکرسر کے قریب آگئی۔ انھوں نے اللہ کاذکر شروع کردیا تو وہ چٹان دورہٹ گئی پھر خوفناک شیر اور درندے ظاہر ہونے لگے مگر وہ بزرگ نہ گھبرائے اور اللہ کاذکر کرتے رہے۔ جب وہ اللہ کے ولی نماز کیلئے کھڑے ہوئے توایک سانپ ان کے پاؤں سے لپیٹ گیاحتیٰ کہ سارے بدن سے پھرتا ہوا سرتک پہنچا۔ وہ بزرگ سجدے کاارادہ فرماتے تو وہ چہرے سے لپیٹ جاتا وہ سجرے کیلئے سرجھکاتے یہ لقمہ بنانے کیلئے جائے سجدہ پر منہ کھول دیتا مگر اللہ کے ولی اسے ہٹاکر سجدہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔جب نماز سے فارغ ہوئے تو شیطان کھل کر سامنے آگیا اور کہنے لگا یہ سار حرکتیں میں نے ہی آپ کے ساتھ کی ہیں آپ بہت ہمت والے ہیں میں آپ سے بہت متاثر ہوا ہوں لہٰذا اب میں نے طے کر لیا ہے کہ آپ کو کبھی نہیں بہکاؤں گا، مہربانی فرماکر آپ مجھ سے دوستی کرلیں،ا س بزرگ نے شیطان کے اس وار کوبھی ناکام بناتے ہوئے فرمایا کہ میں تجھ سے ہرگزدوستی نہیں کروں گا۔ بولااچھا اپنے اہل وعیال کااحوال مجھ سے دریافت کیجئے کہ آپ بعدان پر کیا گزرے گی۔ فرمایا مجھے تجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں شیطان نے کہاپھر مجھ سے یہی پوچھ لیں کہ میں لوگوں کو کس طرح بہکاتا ہوں۔ فرمایاہاں یہ بتادو بولا میرے تین جال ہیں ابخل۲ غصہ ۳ نشہ۔


احیاء العلوم میں ہے کہ ایک شخص دعامانگ رہاتھا کہ اے اللہ! میرے پاس صدقہ خیرات کیلئے کچھ بھی نہیں ہے، بس یہی ہے کہ جو شخص میرے بے عزتی کرے میں اس معاف کردیتا ہوں سرکاردوعالم ﷺ پروحی نازل ہوئی۔ ہم نے اس بندے کو بخش دیا جب آپ کوغصہ آجائے توا ن میں سے کوئی طریقہ اختیار فرمالیں۔


اعوذباللہ من اشیطان الرجیم پڑھیں ۲۔ ولاحولا ولا قوة الاباللہ پڑھیں ۳۔ وضو کرلیں ۴۔ کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیں بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیں ۵۔ جس پر غصہ آرہا ہوں اس کے سامنے سے ہٹ جائیں۶۔ پانی پی لیں ۷۔ خاموش ہوجائیں۔ اللہ ہمیں ہراخلاقی بیماری سے بچائے اور محبت کو توفیق عطا فرمائے
۔

Hazrat Khadija ki Zindagi in Urdu, ام المومنین حضرت سیدہ خدیجة الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا

| comments

آپ کا نام (حضرت) خدیجہ رضی اللہ عنہا ہے۔ نبی کریم کے اِعلانِ نبوت سے قبل وہ عفت و پاکدامنی کے باعث عہدِ جاہلیت میں طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں۔ آپ کے والد کا نام خویلد ہے اور والدہ کا اِسم مبارک فاطمہ بنتِ زاہدہ ہے
علامہ منیر احمد یوسفی:
آپ کا نام (حضرت) خدیجہ رضی اللہ عنہا ہے۔ نبی کریم کے اِعلانِ نبوت سے قبل وہ عفت و پاکدامنی کے باعث عہدِ جاہلیت میں طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں۔ آپ کے والد کا نام خویلد ہے اور والدہ کا اِسم مبارک فاطمہ بنتِ زاہدہ ہے۔ آپ کے والد قبیلہ میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔ مکہ مکرّمہ میں سکونت اختیار کی اور بنو عبدالدار کے حلیف بنے۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی والدہ کا نکاح عامر بن لوی کے خاندان میں ہوا۔ ان کے بطن سے حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا جب جوان ہوئیں تو ان کے والدین نے ان کی شادی ابو ہالہ بن زرارہ تمیمی سے کی۔ ان سے ان کے دو لڑکے پیدا ہوئے ایک کا نام ہند تھا اور دوسرے کانام حارث۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بیٹے ہند نے اوّل اسلام قبول کیا۔ نہایت فصیح و بلیغ تھے۔ امیر المومنین حضرت سیّدنا علی کے ساتھ جنگ جمل میں شریک رہے اور شہید ہوئے۔
حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک کامیاب اور متمول تاجرہ تھیں۔ مکارم اخلاق کا پیکر جمیل تھیں۔ رحمدلی ‘ غریب پروری اور سخاوت آپ کی اِمتیازی خصوصیات تھیں۔
حضرت ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہاکا شمار مکہ مکرمہ کی شریف ترین معزز اور مالدار خواتین میں ہوتا تھا۔ وہ مکہ مکرمہ کے دوسرے تاجروں کے ساتھ مل کر بطورمضاربت تجارت کرتیں اور اپنا تجارتی مال مکہ مکرمہ سے باہر بھیجا کرتی تھیں۔ جتنا سامان تجارت سارے اہل قافلہ کا ہوتا اتنا اکیلے حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا ہوتا۔ آپ اپنے نمائندوں کو سامان تجارت دے کر روانہ فرماتیں۔جو آپ کی طرف سے کاروبار کرتے اس کی دو صورتیں تھیں یا وہ ملازم ہوتے ان کی اجرت یا تنخواہ مقرر ہوتی جو انہیں دی جاتی‘ نفع و نقصان سے انہیں کوئی سروکار نہ ہوتا یا نفع میں ان کا کوئی حصہ‘ نصف‘ تہائی یا چوتھائی مقرر کر دیا جاتا اگر نفع ہوتا تو وہ اپنا حصّہ لے لیتے۔ بصورت نقصان ساری ذمہ داری حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پر ہوتی۔
حضرت ابن اسحاق سے مروی ہے کہ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو رسول کریم ﷺ کی راست گفتاری‘ امانت اور نیک کرداری کا علم ہوا۔ انہوں نے آپ سے درخواست کہ آپ میرا مال تجارت لے کر شام جائیں۔ میں اب تک دوسرے تاجروں کو منافع میں سے جس قدر حصّہ دیتی تھی اس سے بہت زیادہ آپ کو دوں گی اور اپنے غلام میسرہ کو ساتھ کر دوں گی۔ آپ نے یہ تجویز منظور فرمائی اور ان کا مال لے کر روانہ ہوئے۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا غلام بھی ان کے ساتھ تھا۔ دونوں شام آئے‘ وہاں نسطور راہب کی خانقاہ کے قریب ایک درخت کے سایہ میں فروکش ہوئے۔ راہب نے میسرہ سے پوچھا یہ ہستی جو درخت کے نیچے اتری ہیں یہ کون ہیں؟ اس نے کہا‘ یہ اہل حرم کے ہاشمی قریش خاندان کے ایک صالح‘ امانتداراور سچے انسان ہیں۔ راہب نے کہا ان کی آنکھوں میں سرخی ہے۔ میسرہ نے کہا ‘ہاں یہ سرخی کبھی ان سے جدا نہیں ہوتی۔ نسطور نے کہایہ پیغمبر ہیں اور سب سے آخری پیغمبر ہیں۔ (طبقات ابن سعد)
راہب نے کہااس درخت کے نیچے سوائے نبی اللہ ﷺ کے اور کوئی شخص آج تک فروکش نہیں ہوا۔ رسول کریم ﷺنے یہاں جو مال لائے تھے بیچ دیا اور جو خریدنا تھا وہ خرید لیا۔ آپ مکہ مکرمہ واپس پلٹے۔ میسرہ بھی ہمراہ تھا۔ دوپہر اور سخت گرمی کے وقت میسرہ کیا دیکھتا ہے کہ آپ اونٹ پر سوار ہوتے ہیں اور دو فرشتے آپ کو تمازت آفتاب سے بچانے کے لیے سایہ کر لیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس کے دِلنشین ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں نبی کریم کی ایسی محبت ڈال دی کہ گویا وہ نبی کریمﷺ کا غلام بن گیا۔
جب قافلے نے اپنا تجارتی سامان فروخت کرکے فراغت پائی تو مال میں معمول سے دو چند نفع ملا۔ وہ واپس چلے تو مقام مرالظہران میں پہنچ کے میسرہ نے عرض کیا یا محمد(ﷺ) آپ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس چل دیجئے۔ آپ کے باعث حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اللہ تعالیٰ نے نفع دیا ہے اس کی حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اطلاع کیجئے۔ وہ آپ کا حق یاد رکھیں گی۔ رسول کریم ﷺاس رائے کے مطابق پہلے روانہ ہو گئے۔ یہاں تک کہ ظہر کے وقت مکہ مکرّمہ پہنچے۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بالا خانے پر بیٹھی ہوئی تھیں۔دیکھا کہ رسول کریم اونٹ پر سوار تشریف لا رہے ہیں اور دو فرشتے اِدھر ادھر سے سایہ کئے ہوئے ہیں۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنی عورتوں کو یہ نظارہ دِکھایا تووہ بھی اس دِلکش منظر کو دیکھ کر خوش ہوئیں۔ میسرہ جو ہم سفر تھا اس نے حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو بتایا کہ میں یہ منظر سارے راستے دیکھتا آیا ہوں۔ میسرہ نے و ہ باتیں بھی کہہ دیں جو نسطور راہب نے کہیں تھیں۔ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جو معاوضہ مقرر کر رکھا تھا۔ تجارتی قافلہ کے دوچند منافع کی وجہ سے آپ کا منافع بھی دوچندکر دیا۔ (طبقات ابن سعد‘ البدایہ والنہایہ)

اہل سیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے خوا ب میں دیکھا تھا کہ آسمانی آفتاب ان کے گھر میں اتر آیا ہے اور اس کا نور ان کے گھر سے پھیل رہا ہے۔ یہاں تک کہ مکہ مکرمہ کا کوئی گھر ایسا نہیں تھا جو اس نور سے روشن نہ ہوا ہو۔ جب وہ بیدار ہوئیں تو یہ خواب اپنے چچا ورقہ بن نوفل سے بیان کیا۔ اس نے خواب کی یہ تعبیر دی کہ نبی آخرالزماں تم سے نکاح کریں گے۔
حضرت جبرا ئیل جب پہلی وحی لے کر آئے اورسورة العلق کی آیات پڑھی۔ رسول کریم ان آیات مبارکہ کو لے کر لوٹے آپ کا قلب مضطرب تھا۔ آپ حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے گئے۔ آپ نے فرمایا: مجھے کپڑوں میں لپیٹ لو۔ مجھے کپڑوں میں لپیٹ لو۔ حتیٰ کہ آپ کا اِضطراب جاتا رہا۔ آپ نے حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرشتے کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے ارشادمبارک فرمایا! مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں عرض کیا: ”نہیں نہیں آپ کو ڈر کاہے کا۔ بخدااللہ آپ کو ہر ایک مشقت سے بچائے گا۔ بے شک آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اہل قرابت سے عمدہ سلوک کرتے ہیں درماندوں کی دستگیری کرتے ہیں تہی دستوں کی مدد فرماتے ہیں مہمان نوازی کرتے ہیں اصلی مصیبت زدوں کی امداد فرماتے ہیں۔“
 (بخاری حدیث نمبر 3)

حضرت ابو طالب کی وفات کے چند ہی روز تقریباً 35 دن بعد 10 رمضان المبارک کو حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا وصال فرما گئیں۔ آپ کے دونوں مددگار اور غمگسار اٹھ گئے۔ یہ وہ وقت تھا جو اسلام کے لئے سخت ترین تھا۔ خود نبی کریمﷺ اس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال فرمایا کرتے تھے۔اُمّ المومنین حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے 65 سال کی عمر میں وفات پائی۔ حجون کے قبرستان میں آپ کو دفن کیا گیا۔ ابھی تک نماز جنازہ کا آغاز نہیں ہوا تھا جب مرقد پاک تیار ہوگئی تو حضور نبی کریم ﷺخود اس میں تشریف لے گئے پھر اس قبر انور میں حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ا للہ کے سپرد فرما دیا۔

خراجِ شفقت :
اُمّ المومنین حضرت سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ آپ ﷺ نے ان الفاظ میں اُمّ المومنین حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو خراجِ شفقت عطا فرمایا : ”وہ مجھ پر ایمان لائیں جب اوروں نے کفر کیا۔ اس نے میری تصدیق کی جبکہ اوروں نے مجھے جھٹلایا اس نے مجھے اپنے مال میں شریک کیا اور مجھے کسبِ مال سے روکا۔ اللہ نے مجھے اس کے بطن سے اولاد دی جبکہ کسی دوسری بیوی سے نہ ہوئی ۔( الاستعیاب‘ رحمة اللعالمین جلد 2‘ سیرت النبی جلد 2)
حضرت سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا وہ پہلی عظیم خاتونِ اوّل ہیں جن پر اسلام کی حقیقت سب سے پہلے روشن ہوئی اور انہوں نے حضور نبی کریم کی تصدیق کی اور اپنا تمام مال رسول کریم ﷺکی رضاکی خاطر خرچ کیا۔

Major Sins as revealed by Prophet (peace be upon him)

| comments

It has been reported by Anas raziallahu anhu that Prophet (PBUH) many times revealed about the major sins. The major sins which will never be forgiven by Allah are:
  • Associating partners with Allah: This is one of the major and biggest of all sins
  • Disobeying Parents: one who will disobey his parents will never get forgiveness from Allah (SWT)
  • Killing Oneself: One who commits suicide will not be forgiven
  • False Speech: One who makes a false speech against any one will also not be forgiven
(Tirmidhi - Vol. 1, Book 12, Hadith 1207

How to Bring Up your Child Under Islamic Rules

| comments

Allah (SWT) has made this world to examine its creatures whether they could stood on what Allah (SWT) has asked them to do. But as we are examining the current situation of any country or any tribe in the world we could say with regret that we are very far from that. One day we have to stand before Allah (SWT) what will we answer him. Please dear brothers Follow the rules of Islam and you will succeed in both the worlds.

Some Ways to Bring Up your Child Under Islamic Shades

Below we have written some of the ways, there are many other ways:
  • Make your Child Addict of Salah (Prayer) From the very First Time
  • Prepare him to recite Quran Every Day
  • Make him clear of what is bad and what is good
  • Teach him all the sayings and what Prophet Mohammad S.A.W has asked as to do.
  • Treat your Child Fairly
  • When you have any gift, give it to daughter first and then to your son
  • Do not use deride language if your children do something wrong
  • Give your child a good name
  • Educate your Children

Benefits of Ayatul Kursi After Salah, Wudhu

| comments

What is Ayatul Kursi

Ayatul Kursi is one of the Verses of Surah al-Baqarah in Quran. Ayatul Kursi is the 255th ayah of Surah al-Baqarah. Holy prophet (PBUH) has revealed to Sahabas various benefits of Ayatul Kursi. Ayatul Kursi is also spoken out after finishing Fard Salah.

Some of the Benefits of Ayatul Kursi

  • Ayatul Kursi protects one against Shaytan.
  • Ayatul Kursi is the greatest ayah among all that is written in Quran.
  • Recitation of Ayatul Kursi consistently makes one's death time easy


What Is Fasting According To Islam/ Benefits of Fasting

| comments

How Is Fasting Beneficial For Humans? 

Fasting is a unique moral and spiritual characteristic of Islam.  Fasting means to abstain "completely" from foods, drinks, intimate intercourse and smoking, before the break of the dawn till sunset, amid the whole month of Ramadan, the ninth month of the Islamic year. In any case, on the off chance that we limit the significance of the Islamic Fasting to this strict sense, we would be unfortunately misguided. At the point when Islam presented this incomparable organization, it planted a constantly developing tree of interminable excellence and precious items. 

Here is a clarification of the otherworldly significance of the Islamic Fasting: 
  • It shows man the rule of earnest Love: on the grounds that when he watches Fasting he does it because of profound adoration for Allah. Furthermore, the man who adores God genuinely is a man who truly comprehends what adoration is. 
  • It outfits man with an innovative feeling of trust and an idealistic point of view; in light of the fact that when he fasts he is wanting to please God and is looking for His Grace. 
  • It saturates in man the bona fide goodness of compelling commitment, genuine devotion and closeness to God; on the grounds that when he fasts he does as such for God and for His purpose alone. 
  • It develops in man a cautious and sound still, small voice; on the grounds that the fasting individual keeps his quick in mystery and also openly. In fasting, particularly, there is no everyday power to check man's conduct or propel him to watch fasting. He keeps it to please God and fulfill his own inner voice by being dedicated in mystery and out in the open. There is no better approach to develop a sound heart in man. 
  • It instills man in persistence and benevolence, as through fasting, he feels the torments of hardship however he continues them calmly. 
  • It is a viable lesson in connected control and resolve. 
  • Fasting additionally gives man a straightforward soul, a reasonable personality and a light body. 
  • It shows man another method for astute investment funds and sound planning. 
  • It empowers man to ace the specialty of Mature Adaptability. We can without much of a stretch comprehend the point once we understand that fasting rolls out man improvement the whole course of his day by day life. 
  • It grounds man in order and sound survival. 
  • It begins in man the genuine soul of social having a place, solidarity and fellowship, of correspondence before God and in addition under the steady gaze of the law. 
  • It is a Godly solution for self-consolation and poise. 

However, somebody may be enticed to raise the protest: If this is the situation with the Islamic organization of fasting, and if this is the picture of Islam in this perspective, why are the Muslims not living in a perfect world? To such a protest we can just say that Muslims have lived in and delighted in a perfect world in a sure age of their history. The acknowledgment of that perfect world was a wonder of an one of a kind accomplishment ever. We say extraordinary, in light of the fact that no religion or social framework other than Islam has ever possessed the capacity to understand its beliefs as a general rule. 

The motivation behind why the Islamic perfect world is not being built up these days is complex and effectively intelligible. Be that as it may, to confine our discourse to the organization of fasting we may say that some Muslims, lamentably for them, don't watch the quick or, best case scenario, embrace the mentality of lack of concern. Then again, some of the individuals who watch it don't understand its actual significance and, therefore, determine next to no advantage out of it or, truth be told, no advantage by any stretch of the imagination. That is the reason some Muslims today, hate the genuine benefits of fasting. It has as of now been shown that the time of compulsory fasting is the month of Ramadan. The day by day time of recognition begins before the break of the first light and finishes promptly after dusk. Ordinarily there are precise logbooks to toll the careful time, yet without such offices one ought to counsel one's watch and the sun's positions, together with the neighborhood daily papers, climate department, and so on. 

Fasting Ramadan is compulsory on each capable and fit Muslim. In any case, there are different times when it is prescribed to make intentional fasting, after the Traditions of Prophet Muhammad. Among these circumstances are Mondays and Thursdays of consistently, a couple of days of every month in the two months proclaiming the happening to Ramadan, i.e., Rajab and Sha'ban, six days after Ramadan taking after the 'Eid-ul-Fitr Day. In addition, it is continually repaying to quick any day of any month of the year, aside from the 'Eid Days and Fridays when no Muslim ought to fast. 

Notwithstanding, we may rehash that the main required fasting is that of Ramadan - which may be 29 or 30 days, contingent upon the moon's positions. This is a mainstay of Islam, and any inability to watch it without sensible reasons is a grave sin in seeing God. 

Who Must Fast? 
Fasting Ramadan is mandatory upon each Muslim, male or female, who has these capabilities: 
  • To be rationally and physically fit, which intends to be normal and capable. 
  • To be of full age, the time of adolescence and attentiveness, which is ordinarily around fourteen. Kids under this age ought to be urged to begin this great practice on simple levels, so when they achieve the period of adolescence they will be rationally and physically arranged to watch fasting. 
  • To be available at one's changeless settlement, the place where you grew up, one's ranch, and one's business premises, and so forth. This implies not to be on an excursion of around fifty miles or more. 
  • To be genuinely sure that fasting is unrealistic to bring about you any damage, physical or mental, other than the ordinary responses to appetite, thirst, and so forth. 

Who Can Exempt Fasting: 
  • Persons who has these capabilities can Exempt Fasting:  
  • Kids under the age of eleven. 
  • Mad or unconscious individuals who are unaccountable for their deeds. Individuals of these two classes are exempted from the obligation of clench hand, and no pay or whatever other substitute is ordered on them. 
  • Men and ladies who are excessively old and weak, making it impossible to attempt the commitment of quick and bear its hardships. Such individuals are exempted from this obligation, however they must offer, no less than, one penniless poor Muslim a normal full dinner or its quality per individual every day. 
  • Wiped out individuals whose wellbeing is liable to be seriously influenced by the recognition of fast. They may put off the quick, the length of they are debilitated, to a later date and compensate for it, a day for a day. 
  • Voyagers may break the quick briefly amid their travel just and compensate for it in later days, a day for a day 
  • Pregnant ladies and ladies bosom encouraging their kids might likewise break the quick, if its recognition is prone to jeopardize their own wellbeing or that of their newborn children. Be that as it may, they must compensate for the quick at a deferred time, a day for a day. 
  • Ladies in the - time of feminine cycle (of a most extreme of ten days or of imprisonment (of a greatest of forty days).; They must defer the quick till recuperation and afterward compensate for it, a day for a day. 
  • It ought to be comprehended that here, as in all other Islamic endeavors, the expectation must be clarified this activity is attempted in compliance to God, because of His order and out of adoration for Him. 

The fast of any day of Ramadan gets to be void by purposeful eating or drinking or smoking or liberality in any private intercourse, and by permitting anything to enter through the mouth into the inside parts of the body. What's more, if this is done purposely with no legal reason, this is a noteworthy sin which just reestablished contrition can appease. 

On the off chance that anybody, through absent mindedness, accomplishes something that would customarily break the fast, recognition is not invalidated, and his fast stands legitimate, if he quits doing that thing the minute he understands what he is doing. On finish of the quick of Ramadan, the exceptional philanthropy known as Sadagat-ul-Fitr (philanthropy of " Fast-breaking) must be appropriated before 'Eid-ul-Fitr (roughly), seven dollars for each head. 

General Recommendations: 
It is  prescribed by Prophet Muhammad(pbuh) to check these practices particularly amid Ramadan: 
  • To have a light feast before the break of the sunrise, known as Suhoor. 
  • To eat a couple dates or begin breaking the quick by plain water directly after nightfall, saying this supplication to God Allah humma laka sumna, wa 'ala rizqika aftarna. (O God! for Your purpose have we fasted and now we break the quick with the sustenance You have given us). 
  • To make your dinners as light as could be allowed on the grounds that, as the Prophet put it, the most exceedingly awful thing man can fill is his stomach. 
  • To watch the supererogatory supplication to God known as Taraweeh. 
  • To trade social visits and heighten philanthropic administrations. 
  • To build the study and recitation of the Qur'an. 
  • To apply the most extreme in tolerance and humbleness. 
  • To be phenomenally wary in utilizing one's detects, one's brain and, particularly, the tongue; to keep away from indiscreet babble and maintain a strategic distance from every single suspicious movement. 

 
Support : Creating Website | Ilyas-Bini-Yousuf | Template
Copyright © 2015. Way Of Life In islam - All Rights Reserved
Template Created by Creating Website Published by +91 9622430655
Proudly powered by Ilyas-Bini-Yousuf